غزل
(سرور عالم راز سرور)

نفس نفس سَر بسر پریشاں، نظر نظر اِضطراب میں ہے
مگر وہ تصویرِ Ø+سنِ معنی، نقاب میں تھی نقاب میں ہے

کوئی بتائے کہ فرق کیسا یہ عاشقی کے نصاب میں ہے
مرے سوالوں میں کب تھا آخر وہ سب جو اُن کے جواب میں+ ہے

مزہ نہ زہدوثواب میں ہے، نہ لُطف جام و شراب میں ہے
"غم جُدائی سے جان میری عجب طرØ+ Ú©Û’ عذاب میں ہے

نہ منہ سے بولو، نہ سر سے کھیلو، عجیب دستور ہے تمہارا
سلام لینے کا یہ طریقہ تمہی کہو کس کتاب میں ہے؟

مِیانِ خواب Ùˆ خیال Ùˆ Ø+سرت، تلاش Ú©Û’ لاکھ مرØ+Ù„Û’ تھے
رہِ Ù…Ø+بت میں+ کامیابی بتائیے کس Ø+ساب میں ہے؟

کشاکش و رنجِ ہجر، توبہ! کسے تمنائے وصل ہے اب؟
زہے Ù…Ø+بت، مرا تخیل! جو خود شناسی Ú©Û’ باب میں ہے

تماشہء بود Ùˆ ہست اصلِ Ø+یات ہے تو Ø+یات کیا ہے؟
جو بات اب تک Ø+جاب میں تھی، وہ بات اب بھی Ø+جاب میں+ ہے!

سØ+ر گذیدہ چراغِ شب تھا بھڑک بھڑک کر جو بجھ گیا ہے
وجود، مانندِ دُود میرا، طوافِ بزمِ خراب میں ہے!

زمانہ بیزار تجھ سے سرور، تو آپ بیزار زندگی سے
کوئی خرابی تو ہے یقیناً جو تجھ سے خانہ خراب میں ہے!